بھلے ہی مرا حوصلہ پست ہوتا
مقابل تو کوئی زبردست ہوتا
گزارا تو پہلے بھی کرتا ہی تھا میں
مزا جب تھا بالکل تہی دست ہوتا
تری دستگیری کہاں اور کہاں میں
ترا آسرا ہی سر دست ہوتا
میں پھوٹا تھا جس شاخ پر بن کے کونپل
اسی شاخ میں کاش پیوست ہوتا
گلاس ایک تھا پینے والے کئی تھے
تو کیا منتقل دست در دست ہوتا
کہیں ہم کو بے دخل کر دے نہ کوئی
نہیں ہم سے گھر کا در و بست ہوتا
تمہی ہو جو لائے ہو مجھ کو یہاں تک
نہ تم نیچ ہوتے نہ میں پست ہوتا
کہا تو نے مانا نہ افسوس اپنا!
بلندی پہ راشدؔ بیک جست ہوتا
غزل
بھلے ہی مرا حوصلہ پست ہوتا
راشد مفتی