بھلے بجھانے کی ضد پہ ہوا اڑی ہوئی ہے
مگر چراغ کی لو اور بھی بڑھی ہوئی ہے
میں سوچتا ہوں اسے سر پہ رکھ لیا جائے
زمین کب سے مرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہے
تمہارے لہجے کی لکنت بتا رہی ہے مجھے
کہ تم نے خود سے ہی یہ داستاں گڑھی ہوئی ہے
کوئی بتائے غزالہ کو میں شکاری ہوں
وہ بے تکان مری راہ میں کھڑی ہوئی ہے
یہ رنگ رنگ لباسوں میں کچھ نہیں ہے فرازؔ
کہ سب کی اصل قبا خاک سے جڑی ہوئی ہے
غزل
بھلے بجھانے کی ضد پہ ہوا اڑی ہوئی ہے
فراز محمود فارز