بھلا کہاں کسے ممکن ہے یہ ادا ہر بار
چراغ رکھتا ہے لو پر دم ہوا ہر بار
تو اپنے ہاتھوں کی ٹھنڈک سے کر مجھے مانوس
تو میری آنکھوں پہ رکھ شعلۂ حنا ہر بار
کبھی تو میرے لہو کے نشاں بنیں گے پھول
میں غم کے دشت سے گزرا برہنہ پا ہر بار
یہ میری ذات سے نسبت ہوئی ہے اب کس کو
میں خود کو دیکھتا ہوں کیوں جدا جدا ہر بار
کبھی تو چمکے گا دل راس آئے گی دنیا
جہاں سے گزرا ہوں یہ سوچتا ہوا ہر بار
بچا کے رکھے سلامت نہ کوئی جاں اپنی
سنائی دیتی ہے بس اک یہی صدا ہر بار
وہ طورؔ کیوں مری باتوں پہ غصہ کرتا ہے
اکھرتا کیوں ہے اسے میرا پوچھنا ہر بار

غزل
بھلا کہاں کسے ممکن ہے یہ ادا ہر بار
کرشن کمار طورؔ