بھلا ہو جس کام میں کسی کا تو اس میں وقفہ نہ کیجئے گا
خیال زحمت نہ کیجئے گا ملال ایذا نہ کیجئے گا
وہ مجھ سے فرما رہے ہیں ہنس کر ہمیشہ ملنے کی آرزو پر
ملال ہوگا محال شے کی کبھی تمنا نہ کیجئے گا
حباب ہے زندگی کا نقشہ کہاں کا دن ماہ و سال کیسا
ہوا ہے یہ دم کا کیا بھروسہ امید فردا نہ کیجئے گا
کیا تو ہے عشق حضرت دل لیا ہے سر پر یہ بار مشکل
ہوا اگر مدعا نہ حاصل تو راز افشا نہ کیجئے گا
جو آپ آئیں پئے عیادت یقیں ہے ہو جائے مجھ کو صحت
مگر برائے خدا یہ زحمت کبھی گوارہ نہ کیجئے گا
جو اہل دنیا کے تھے مخالف ہوئے وہ دنیا کے اور نہ دیں کے
سمجھیے اب خاتمہ ہے دیں کا جو فکر دنیا نہ کیجئے گا
یہ قاعدہ رسم و راہ کا ہے خیال دونوں طرف ہو یکساں
کسی کو پروا نہ ہوگی جس دم کسی کی پروا نہ کیجئے گا
تعلق اہل جہاں سے ہو گر تو رکھیے بیم و رجا برابر
سوا خدا کے کسی کے اوپر کبھی بھروسہ نہ کیجئے گا
عزیز ہے جوہر امانت کسی سے الفت ہو یا عداوت
اگر ہے کچھ غیرت شرافت تو راز افشا نہ کیجئے گا
بیان کی احتیاج ہے کب رہا ہے صرف ایک حرف مطلب
حبیبؔ کا درد دل سنا سب اب اس کا چارہ نہ کیجئے گا
غزل
بھلا ہو جس کام میں کسی کا تو اس میں وقفہ نہ کیجئے گا
حبیب موسوی