بھاگتے سورج کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے ہم
شام کے ہوتے ہی واپس اپنے گھر جائیں گے ہم
کاٹنے کو ایک شب ٹھہرے ہیں تیرے شہر میں
کیا بتائیں صبح ہوگی تو کدھر جائیں گے ہم
دھوپ میں پھولوں سا مرجھا بھی گئے تو کیا ہوا
شہر سے ہونٹوں کے پیمانے تو بھر جائیں گے ہم
آج گردوں کی بلندی ناپنے میں محو ہیں
کل کسی گہرے سمندر میں اتر جائیں گے ہم
ڈھونڈتے کھویا ہوا چہرہ کسی شیشے میں کیوں
جانتے گر یہ کہ سائے سے بھی ڈر جائیں گے ہم
کچھ ہمارا حال بھی خاورؔ ہے کندن کی طرح
دکھ کے شعلوں میں جلیں گے تو نکھر جائیں گے ہم

غزل
بھاگتے سورج کو پیچھے چھوڑ کر جائیں گے ہم
بدیع الزماں خاور