EN हिंदी
بھاگ کہ منزل قرار عمر کی رہ گزر نہیں | شیح شیری
bhag ki manzil-e-qarar umr ki rahguzar nahin

غزل

بھاگ کہ منزل قرار عمر کی رہ گزر نہیں

ناطق گلاوٹھی

;

بھاگ کہ منزل قرار عمر کی رہ گزر نہیں
اس میں فرار کے سوا اور کوئی مفر نہیں

ہے تو بلائے زندگی رسم وفا مگر نہیں
بات یہ ہے کہ خیر سے شر پہ مری نظر نہیں

شیخ جزائے کار خیر یہ جو بتا رہا ہے آج
بات تو خوب ہے مگر آدمی معتبر نہیں

بہر حصول مدعا رات دن ایک کیجئے
راہ طلب کے واسطے شام نہیں سحر نہیں

رہتے ہیں دور دور ہم رسم و رواج زیست سے
چلتے ہیں جس پہ عام لوگ اپنی وہ رہ گزر نہیں

چھوڑ بھی دیتے محتسب ہم تو یہ شغل مے کشی
ضد کا سوال ہے تو پھر جا اسی بات پر نہیں

کون ہے جو نہیں شکار اس میں خیال خام کا
کیا ہے یہ بزم زندگی دام فریب اگر نہیں

ناطقؔ نیم جاں اگر ہے بھی تو صبح و شام کا
کل تو خراب حال تھا آج کچھ خبر نہیں