بیزار زندگی سے دل مضمحل نہیں
شاید بقدر ظرف ابھی درد دل نہیں
اپنا تو اس نے ساتھ نبھایا ہے عمر بھر
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ غم مستقل نہیں
دیوانۂ مفاد ہے بیگانۂ خلوص
وہ اہل عقل و ہوش سہی اہل دل نہیں
شعلے کہاں سے آئیں گے کیسے کھلیں گے پھول
زخموں کی آگ دل میں اگر مستقل نہیں
وہ تو ہماری بات کو سمجھیں گے کس طرح
جن کا دماغ تو ہے مگر جن کا دل نہیں
کیا خوب انہماک ہے محو خیال کا
طالبؔ خدا کی ذات بھی اس میں مخل نہیں
غزل
بیزار زندگی سے دل مضمحل نہیں
طالب چکوالی