بیزار پھر نہ ہوں گے کبھی زندگی سے ہم
ہو لیں ترے قریب جو خوش قسمتی سے ہم
اے کاش ہم بھی ہوتے کبھی اتنے خوش نصیب
غم بانٹتے کسی کا تو ہنستے کسی سے ہم
تم نے بلا لیا تو چلے آئے بزم میں
کب چاہتے تھے قرب حریفاں خوشی سے ہم
انجام طور آج بھی اپنی نظر میں ہے
غش کھا نہ جائیں آپ کی جلوہ گری سے ہم
جی چاہتا ہے راز دل گل تو کچھ کھلے
بلبل کی بات پوچھ لیں جا کر کلی سے ہم
ناز و نیاز عشوہ و غمازیاں نہ سیکھ
اے حسن کہہ رہے ہیں دل عاشقی سے ہم
شاداںؔ کی ہے صدا کی پلٹ آئے انقلاب
عاجز نہیں ہیں آج بھی فرماں دہی سے ہم
غزل
بیزار پھر نہ ہوں گے کبھی زندگی سے ہم
شانتی لال ملہوترہ