بے وفائی اس نے کی میری وفا اپنی جگہ
خون دل اپنی جگہ رنگ حنا اپنی جگہ
کتنے چہرے آئے اپنا نور کھو کر چل دیے
ہے مگر روشن ابھی تک آئنہ اپنی جگہ
زندگی نے اس کو ساحل سے صدائیں دیں بہت
وقت کا دریا مگر بہتا رہا اپنی جگہ
اس کی محفل سے مجھے اب کوئی نسبت ہی نہیں
ہے مری تنہائیوں کا سلسلہ اپنی جگہ
ہم چراغوں سے کریں گے دوستی کی بات اب
یہ اندھیروں نے کیا ہے فیصلہ اپنی جگہ
تو سمندر اور میری ذات اک قطرہ سہی
تیری رحمت ہر طرف میری دعا اپنی جگہ
اب تو مجھ کو بھی صدا دیتے ہیں داناؔ کہہ کے لوگ
زندگی رہنے دے اپنا مشورہ اپنی جگہ
غزل
بے وفائی اس نے کی میری وفا اپنی جگہ
عباس دانا