بے وفا تھا تو نہیں وہ، مگر ایسا بھی ہوا
وہ جو اپنا تھا بہت اور کسی کا بھی ہوا
تیری خوشبو بھی ترے زخم میں ملفوف ملی
تجھ سے گھائل بھی ہوا اور میں اچھا بھی ہوا
راہ دے دی ترے بادل کو گزرنے کے لیے
ورنہ یہ دل تو تری پیاس سے صحرا بھی ہوا
شکر واجب تھا اسے تیری محبت کا، سو دل
تیرا یوسف بھی رہا، اور زلیخا بھی ہوا
بھیڑ وہ تھی تری چوکھٹ پہ طلب گاروں کی
کوئی بے لمس رہا تیرا بلایا بھی ہوا
میں نے تصویر بنائی تو مخاطب بھی ہوئی
حرف کو ہاتھ لگایا تو وہ زندہ بھی ہوا
سجدۂ مرگ سے ماتھے کو اٹھایا اک روز
میں ہوا خاک تو پھر خاک سے پیدا بھی ہوا
جتنا اجڑا ہے کوئی شہر تمنا اے دل
کبھی لگتا ہی تھا اتنا بسایا بھی ہوا

غزل
بے وفا تھا تو نہیں وہ، مگر ایسا بھی ہوا
سید کاشف رضا