بیتابیوں کو میری بڑھانے لگی ہوا
رخ سے نقاب ان کا اٹھانے لگی ہوا
پہلے بھی کر چکی ہے مرا آشیاں تباہ
تیور پھر آج اپنے دکھانے لگی ہوا
ان کی تلاش کوئی بھلا کس طرح کرے
نقش قدم بھی ان کے مٹانے لگی ہوا
پورب سے جب چلی تو ہرے زخم ہو گئے
دل میں عجیب ٹیس اٹھانے لگی ہوا
لگتا ہے خوش نہیں ہے یہ غازیؔ سے ان دنوں
صحن چمن میں دھول اڑانے لگی ہوا
غزل
بیتابیوں کو میری بڑھانے لگی ہوا
شاہد غازی