EN हिंदी
بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں | شیح شیری
betab hain kisi ki nigahen naqab mein

غزل

بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں

نسیم بھرتپوری

;

بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں
ہیں بجلیاں کہ کوند رہی ہیں سحاب میں

لکھوں گا خط میں خوب عدو کی برائیاں
ہو کر خفا وہ کچھ نہ لکھیں گے جواب میں

ہم کو ہے ان کی فکر تو ان کو عدو کی فکر
دونوں ہیں ایک سلسلۂ اضطراب میں

اس چھیڑ کے نثار کہ سن کر سوال وصل
آئینہ رکھ دیا مرے آگے جواب میں

یاروں میں بوئے مہر و محبت نہیں نسیمؔ
کیا خاک اڑ رہی ہے جہان خراب میں