بے جا نہ تھا اٹھ بیٹھنا بے چینی سے میرا
شب سامنے آنکھوں کے وہ تصویر کھڑی تھی
اک ہاتھ دھرا دل پہ اک انگشت دہن میں
یوں کشتۂ الفت کی ترے لاش پڑی تھی
اس گوہر یکتا کی جو میں یاد میں رویا
ہر اشک مسلسل مرا موتی کی لڑی تھی
صدمے سے شب ہجر کے جیتا جو بچا تو
بیمار تپ ہجر تری عمر بڑی تھی
کی اس نے ہے آسان دم تیغ سے ورنہ
منزل یہ شعورؔ اپنے لیے سخت کڑی تھی
غزل
بے جا نہ تھا اٹھ بیٹھنا بے چینی سے میرا (ردیف .. ی)
شعور بلگرامی