بے جا ہے رہ عشق میں اے دل گلۂ پا
یہ اور ہی منزل ہے نہیں مرحلۂ پا
ہنگام خرام اس کے ہجوم دل عشاق
غش کردہ ہیں ٹھوکر کے بہر فاصلۂ پا
کل بوسۂ پا ہم نے لیا تھا سو نہ آیا
شاید کہ وہ بوسہ ہی ہوا آبلۂ پا
اس پا کی رہ رشک میں نازک قدموں کے
پھرتے ہیں بھٹکتے ہوئے سو قافلۂ پا
سو ناز سے ٹھوکر بہ سر عرش لگانا
اس گل کے سوا کس کا ہے یہ حوصلۂ پا
گلبرگ پہ رکھتے ہی قدم ہنس کے جو کھینچا
شاید ہوئی سختی سے رگ گل خلۂ پا
دل سے رہ دل بستگی کب طے ہو نظیرؔ آہ
وہ زلف مسلسل جو نہ ہو سلسلۂ پا
غزل
بے جا ہے رہ عشق میں اے دل گلۂ پا
نظیر اکبرآبادی