EN हिंदी
بے گانگی میں یوں ہی گزارا کریں گے ہم | شیح شیری
begangi mein yunhi guzara karenge hum

غزل

بے گانگی میں یوں ہی گزارا کریں گے ہم

طلعت اشارت

;

بے گانگی میں یوں ہی گزارا کریں گے ہم
بے چین ہوں تو خود کو پکارا کریں گے ہم

آبادیوں کے حزن میں صحرا کے شہر میں
بستی نئی بسا کے نظارا کریں گے ہم

اپنے دکھوں کو ان کی خوشی میں چھپائیں گے
ان کی ہنسی کی بھینٹ اتارا کریں گے ہم

جو جی میں آئے گا وہ کریں گے سرور میں
پھر فصل گل کو بعد گوارا کریں گے ہم

نا آشنا حبیب کی بے اعتنائی پر
بزم تخیلات سنوارا کریں گے ہم

از روئے انتقام ترے در تک آئیں گے
از روئے مہر تجھ سے کنارا کریں گے ہم

اپنے ہر ایک جھوٹ پہ ایمان لائیں گے
اپنی انا کا بوجھ اتارا کریں گے ہم