بیگانگی کے بام سے پل بھر اتر کے دیکھ
میں کون ہوں مجھے بھی ذرا آنکھ بھر کے دیکھ
کیوں بد گماں ہے خلق خدا تیری ذات سے
لوگوں میں بیٹھ اور ذرا بات کر کے دیکھ
ایسی کرن کہ جوڑ سکے رشتۂ بدن
ان ظلمتوں میں فاصلے قلب و نظر کے دیکھ
دشت بلا میں کتنے بگولے ہیں گھات میں
میں تو گزر چکا ذرا تو بھی گزر کے دیکھ
اعزاز خسروی سے نہ میری وفا کو ناپ
فرصت ملے کبھی تو مرے زخم سر کے دیکھ
کس زہر کے اثر سے الجھتی ہے میری سانس
دم بھر دھواں دھواں سی فضا میں ٹھہر کے دیکھ
شاہیںؔ وہ گاؤں پھر تری قسمت میں ہو نہ ہو
بہتر ہے خواب اجڑے ہوئے بام و در کے دیکھ
غزل
بیگانگی کے بام سے پل بھر اتر کے دیکھ
جاوید شاہین