بے گانگی کا ابر گراں بار کھل گیا
شب میں نے اس کو چھیڑا تو وہ یار کھل گیا
گلیوں میں شام ہوتے ہی نکلے حسین لوگ
ہر رہ گزر پہ طبلۂ عطار کھل گیا
ہم نے چھپایا لاکھ مگر چھپ نہیں سکا
انجام کار راز دل زار کھل گیا
تھا عشرت شبانہ کی سرمستیوں میں بند
باد سحر سے دیدۂ گلبار کھل گیا
آیا وہ بام پر تو کچھ ایسا لگا منیرؔ
جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کھل گیا
غزل
بے گانگی کا ابر گراں بار کھل گیا
منیر نیازی