بیگانہ ہو کے بزم جہاں دیکھتا ہوں میں
دنیا کے رنگ و بو کا سماں دیکھتا ہوں میں
روشن ضمیر جیسے کوئی صرف دید ہوئے
یوں جلوہ ہائے کون و مکاں دیکھتا ہوں میں
ارزاں ہے ظلم و جور کی افتادگی مگر
جنس و وفا و مہر گراں دیکھتا ہوں میں
اک سمت جشن شادی و ہنگامۂ نشاط
اک سمت حشر آہ و فغاں دیکھتا ہوں میں
شرح الم دراز ہے القصہ اے شکیلؔ
اک داغ اپنے دل میں نہاں دیکھتا ہوں میں
غزل
بیگانہ ہو کے بزم جہاں دیکھتا ہوں میں
شکیل بدایونی