بیگانۂ وفا ترا شیوہ ہی اور ہے
اہل وفا کا طور طریقہ ہی اور ہے
دیر و حرم کی راہ میں رکھتے نہیں قدم
ہم رہروان شوق کا رستہ ہی اور ہے
دل بے وفا کے ہاتھ نہ بیچے گا باوفا
تم سے نہیں بنے گا یہ سودا ہی اور ہے
اللہ دل نہ تم کو تڑپتا ہوا دکھائے
دیکھا نہ جائے گا یہ تماشا ہی اور ہے
جلوہ فروش آپ ہیں میں دل فروش ہوں
ایسوں سے کیا بنے گا یہ سودا ہی اور ہے
ٹکڑے ہیں دل جگر کے مبارکؔ کہ شعر ہیں
غزلوں کا آپ کی تو سفینہ ہی اور ہے
غزل
بیگانۂ وفا ترا شیوہ ہی اور ہے
مبارک عظیم آبادی