EN हिंदी
بیدلؔ کا تخیل ہوں نہ غالب کی نوا ہوں | شیح شیری
bedil ka taKHayyul hun na ghaalib ki nawa hun

غزل

بیدلؔ کا تخیل ہوں نہ غالب کی نوا ہوں

صادق نسیم

;

بیدلؔ کا تخیل ہوں نہ غالب کی نوا ہوں
اس قافلۂ رفتہ کا نقش کف پا ہوں

رقصاں ہے چراغان تمنا مرے ہرسو
وہ روشنیاں ہیں کہ میں سائے سے جدا ہوں

جب دشت الم سے کوئی جھونکا کبھی آیا
میں لالۂ خود رو کی طرح اور کھلا ہوں

ظلمات اماں بھی ہوں اجالوں کا امیں بھی
میں صبح کے تارے کی طرح ڈوب رہا ہوں

افلاک رسی سے بھی تلافی نہیں ہوتی
کس عزم کی ان دیکھی چٹانوں سے گرا ہوں

ہر عکس مقابل سے نمایاں ہے مرا نقش
دنیا میں ہوں یا آئنہ خانے میں کھڑا ہوں

محدود ہے کیوں حد طلب تک مری پرواز
میں موج صبا ہو کے بھی زنجیر بہ پا ہوں

ادراک کے شعلوں کا چمن ہے مرا آہنگ
میں برگ خزاں ہو کے بھی گلزار نما ہوں

احساس کے غنچوں کی چٹک ہے مری آواز
میں سینۂ آفاق میں دھڑکن کی صدا ہوں

ہر چند کہ نس نس میں نہاں برق تپاں ہے
کھل کر بھی برستا ہوں کہ گھنگھور گھٹا ہوں

ایک ایک کرن میں ترے سو رنگ نظر آئے
جب پچھلے پہر چاند کے ہم راہ چلا ہوں

اک نغمۂ رنگیں ہوں لب ساز مژہ پر
صادقؔ جرس غنچہ ہوں تصویر صدا ہوں