بیدار ہو گئے ہیں جو خواب گراں سے ہم
آگے نکل گئے ہیں زبان و مکاں سے ہم
لگ جائے گی ٹھکانے کبھی خاک زندگی
لپٹے رہیں گے گرد پس کارواں سے ہم
منزل بھی تھی نگاہ میں گرد و غبار راہ
لے کر چلے جو اذن سفر کہکشاں سے ہم
اس سنگ آستاں پہ جھکا کر جبین شوق
لو بے نیاز ہو گئے دونوں جہاں سے ہم
مانا نہیں ہے یوں ہی ہمارے وجود کو
ٹکرائے ہیں زمیں سے کبھی آسماں سے ہم
آغاز و انتہا کی حقیقت سے بے خبر
شرح حیات کرتے رہے درمیاں سے ہم
کیا پوچھتے ہو گردش تقدیر کارواں
پہنچے وہیں پہ آ کے چلے تھے جہاں سے ہم
سجدے ہی یاد ہیں نہ ترے سنگ در کا ہوش
سر بھی جھکا کے دور رہے آستاں سے ہم
کچھ بھی نہ تھا رضاؔ وہ بجز دود آہ شوق
تعبیر جس کو کرتے رہے آسماں سے ہم

غزل
بیدار ہو گئے ہیں جو خواب گراں سے ہم
رضا جونپوری