EN हिंदी
بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے | شیح شیری
bedad ke KHugar the fariyaad to kya karte

غزل

بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے

فانی بدایونی

;

بیداد کے خوگر تھے فریاد تو کیا کرتے
کرتے تو ہم اپنا ہی کچھ تم سے گلہ کرتے

تقدیر محبت تھی مر مر کے جیے جانا
جینا ہی مقدر تھا ہم مر کے بھی کیا کرتے

مہلت نہ ملی غم سے اتنی بھی کہ حال اپنا
ہم آپ کہا کرتے اور آپ سنا کرتے

نادم اسے چاہا تھا جان اس پہ فدا کر کے
تدبیر تو اچھی تھی تقدیر کو کیا کرتے

احباب سے کیا کہئے اتنا نہ ہوا فانیؔ
جب ذکر مرا آتا مرنے کی دعا کرتے