بیچتے کیا ہو میاں آن کے بازار کے بیچ
اور انا کاہے کو رکھ چھوڑی ہے بیوپار کے بیچ
اس گھڑی عدل کی زنجیر کہاں ہوتی ہے
جب کنیزوں کو چنا جاتا ہے دیوار کے بیچ
شہر ہوتا ہے ستاروں کے لہو سے روشن
طشت میں سر بھی پڑے ہوتے ہیں دربار کے بیچ
کبھی اس راہ میں پھل پھول لگا کرتے تھے
اب لہو کاٹتے ہیں کابل و قندھار کے بیچ
کرب کے واسطے موجود ہے دنیاۓ بہشت
سچ معلق ہے ابھی آتش و گلزار کے بیچ
راکھ بیٹھے گی تو پھر آگ روانہ ہوگی
جانے کب سے جو دہکتی رہی کہسار کے بیچ
شام اترتی ہے تو واجدؔ میں یہی سوچتا ہوں
آج کا دن بھی گیا یادوں کے انبار کے بیچ
غزل
بیچتے کیا ہو میاں آن کے بازار کے بیچ
واجد امیر