بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر
دام دیتے ہی نہیں آپ تو سودا لے کر
چار دن بھی تو نہ رکھا دل شیدا لے کر
آپ نے ہم سے بھی کمبخت کو کھویا لے کر
قتل کے بعد نزاکت سے جو تھک جاتے ہیں
بیٹھ جاتے ہیں وہ کشتے کا سہارا لے کر
غیر کا قتل کچھ ایسا تو نہیں ہے مشکل
چھوڑ دو ہاتھ کوئی نام ہمارا لے کر
سانس کے ساتھ جو ہوتی ہے کھٹک سینے میں
ضعف سے درد بھی اٹھتا ہے سہارا لے کر
آ گیا مجھ کو نظر اپنی وفا کا انجام
میں نے تلوار کو قاتل سے جو دیکھا لے کر
اب تو بیخودؔ کو یہ دعویٰ ہے بقول استاد
آدمی عشق کرے نام ہمارا لے کر
غزل
بیچنے آئے کوئی کیا دل شیدا لے کر
بیخود دہلوی