بے چین ہوں خونابہ فشانی میں گھرا ہوں
بھیگے ہوئے لفظوں کے معانی میں گھرا ہوں
جو پیڑ پکڑتا ہوں اکھڑ جاتا ہے جڑ سے
سیلاب کے دھارے کی روانی میں گھرا ہوں
مفہوم کا ساحل تو نظر آتا ہے لیکن
میں دیر سے گرداب معانی میں گھرا ہوں
اب لوگ سناتے ہیں مجھے میرے ہی قصے
میں پھیل کے اپنی ہی کہانی میں گھرا ہوں
انبوہ مہ و سال کا کیا بار اٹھے گا
ٹھہرے ہوئے لمحے کی گرانی میں گھرا ہوں
جس شخص کو چاہا ہے اسی شخص کے کارن
زلفیؔ میں کسی کرب بیانی میں گھرا ہوں

غزل
بے چین ہوں خونابہ فشانی میں گھرا ہوں
سیف زلفی