EN हिंदी
بے بسی کی دھوپ ہے غمگین کیا | شیح شیری
bebasi ki dhup hai ghamgin kya

غزل

بے بسی کی دھوپ ہے غمگین کیا

عادل حیات

;

بے بسی کی دھوپ ہے غمگین کیا
پھر رہا ہے در بدر مسکین کیا

ہنس رہا ہوں بے بسی کی دھوپ میں
ہو رہی ہے ذوق کی تسکین کیا

آ رہی ہیں دستکوں پر دستکیں
زندگی پھر ہو گئی سنگین کیا

آنکھ ہنستے ہنستے کیوں رونے لگی
ہر خوشی کرتی ہے بس غمگین کیا

اشک عادلؔ پی رہا ہوں آج کل
ہو گیا ہے ذائقہ نمکین کیا