بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
منہ پھیر لیا ہم نے تو دنیا نہ رہے گی
ایذا نہ رہے گی جو گوارا نہ رہے گی
چھیڑا مجھے دنیا نے تو دنیا نہ رہے گی
دل لے کے یہ کیا ضد ہے کہ اب جان بھی کیوں ہو
یہ بھی نہ رہے گی بہت اچھا نہ رہے گی
یہ درد محبت غم دنیا تو نہیں ہے
اب موت بھی جینے کا سہارا نہ رہے گی
ایسا بھی کوئی دن مری قسمت میں ہے فانیؔ
جس دن مجھے مرنے کی تمنا نہ رہے گی
غزل
بے ذوق نظر بزم تماشا نہ رہے گی
فانی بدایونی