بے زبانوں کو بھی گویائی سکھانا چاہئے
کلمہ انگشت شہادت کو پڑھانا چاہئے
خال رخسار منور کا دکھانا چاہئے
چاند میں اے مہروش دھبا لگانا چاہئے
تیل میری آنکھ کے تل کا لگانا چاہئے
گیسوؤں میں پنجۂ مژگاں کا شانہ چاہئے
بہر زینت دامن شمشیر میں او جنگجو
میری گردن کا تجھے پٹھا لگانا چاہئے
آج کل محو صفائے عارض دلدار ہوں
میرے رہنے کو اب آئینے کا خانہ چاہئے
گھاٹ پر تلوار کے نہلائیو میت مری
کشتۂ ابرو ہوں میں کیا غسل خانہ چاہئے
اے پری ہے کس قدر اڑیل مرا شبدیز فکر
چوٹی کے مضموں کا اس کو تازیانہ چاہئے
طائر رنگ حنا کا مرغ جاں ہوتا جلیس
اب نگینے کے شجر پر آشیانا چاہئے
خط میں لکھی ہے حقیقت دشت گردی کی اگر
نامہ بر جنگلی کبوتر کو بنانا چاہئے
جوش وحشت کہہ رہا ہے نکہت گل کی طرح
آج تو دیوار گلشن پھاند جانا چاہئے
وصف دنداں میں در مضموں کی ہے ہم کو تلاش
بحر فکرت میں دلا غوطہ لگانا چاہئے
چین گیسو سے دکھا دو خال عارض کی بہار
میرے مرغ روح کو یہ دام دانا چاہئے
اس تمنا پر ہوا ہوں خاک میں او جنگجو
میری مٹی کے تجھے مینڈھے لڑانا چاہئے
عارض تاباں کے قل پر بہر دفع چشم بد
خال رخسار پری کا کالا دانا چاہئے
پنجۂ گلگوں کے او گل ہم ہوئے ہیں عندلیب
پنج شاخے پر ہمارا آشیانا چاہئے
چل نہیں سکتا ہمارا توسن عمر رواں
باڑھ کے ڈوری کا قاتل تازیانہ چاہئے
بعد مدت زینت پہلو ہوا ہے وہ پری
آج تو اے دل تجھے بغلیں بجانا چاہئے
ہوں میں اے جراح زخمی تیغ ناز یار کا
ٹانکے بھی گردن کے ڈوری سے لگانا چاہئے
اطلس گردوں سے اطلس ہے فزوں اے ماہ رو
کہکشاں کا تیرے شملے میں بتانا چاہئے
نشہ ہیں اک بحر خوبی کے ہماری قبر پر
چادر آب رواں کا شامیانہ چاہئے
مدحت ساقیٔ کوثر تجھ کو لکھنی ہے قلقؔ
پہلے آب حوض کوثر سے نہانا چاہئے
غزل
بے زبانوں کو بھی گویائی سکھانا چاہئے
ارشد علی خان قلق