بے وضع شب و روز کی تصویر دکھا کر
اب داد نہ مانگو مجھے زنجیر دکھا کر
کیسی ہیں کف لوح پہ بے ربط لکیریں
معنی نہ چھپاؤ مجھے تحریر دکھا کر
اے شیشۂ جاں تجھ میں لہو ختم بھی ہوگا
یہ نشہ اتر جائے گا تاثیر دکھا کر
میں شمع شب ظلم ہوں آغاز سحر تک
دل بجھنے لگا صبح کی تنویر دکھا کر
کس شاخ پہ ہے حرف گل سرخ دکھاؤ
قائل بھی کرو لفظ کی تفسیر دکھا کر
یوں سحر کشش نے کیا اعجاز کا منکر
دیوار ہوا پر مجھے شہتیر دکھا کر
ہے کوہ کنی بار امانت ابھی سر پر
مت روک مجھے تیشہ و تقدیر دکھا کر
کہتے ہو کہ خواہش کا ثمر ترش ہے شاہدؔ
آنکھوں کو غلط خواب کی تعبیر دکھا کر
غزل
بے وضع شب و روز کی تصویر دکھا کر
سلیم شاہد