بے وقت جو گھر سے وہ مسیحا نکل آیا
گھبرا کے مرے منہ سے کلیجہ نکل آیا
مدفون ہوا زیر زمیں کیا کوئی وحشی
کیوں خاک سے گھبرا کے بگولا نکل آیا
آئینہ میں منہ دیکھ کے مغرور ہوئے آپ
دو شکلوں سے کیسا یہ نتیجہ نکل آیا
زخمی جو کیا تم نے کھلے عشق کے اسرار
جو کچھ کہ مرے دل میں نہاں تھا نکل آیا
ٹھکرانے لگے دل کو تو برپا ہوئے طوفاں
قطرہ جو ہٹانے لگے دریا نکل آیا
اب رک نہیں سکتی ہے منیرؔ آہ جگر سوز
دم گھٹنے لگا منہ سے کلیجہ نکل آیا
غزل
بے وقت جو گھر سے وہ مسیحا نکل آیا
منیرؔ شکوہ آبادی