بے وجہ تحفظ کی ضرورت بھی نہیں ہے
ایسی مرے اندر کوئی عورت بھی نہیں ہے
ہاں ان کو بھلا ڈالیں گے اک عمر پڑی ہے
اس کام میں ایسی کوئی عجلت بھی نہیں ہے
کس منہ سے گلہ ایسی نگاہوں سے کہ جن میں
پہچان کی اب کوئی علامت بھی نہیں ہے
ان کو بھی مجھے شعر سنانے کا ہوا حکم
کچھ شعر سے جن کو کوئی نسبت بھی نہیں ہے
میرے بھی تو ماضی کی بہت سی ہیں کتابیں
پر ان کو پلٹنے کی تو فرصت بھی نہیں ہے
کچھ تم سے گلہ اور کچھ اپنے سے کہ مجھ کو
ہر حال میں خوش رہنے کی عادت بھی نہیں ہے
میں دفن رہوں اب یوں ہی ریشم کے کفن میں
اب اس کے سوا اور تو صورت بھی نہیں ہے
غزل
بے وجہ تحفظ کی ضرورت بھی نہیں ہے
شبنم شکیل