بے وجہ نہیں ان کا بے خود کو بلانا ہے
آئینۂ حیرت سے محفل کو سجانا ہے
یار غم ہستی کا ہے تذکرہ لا حاصل
مجبور کا جینا ہی اک بار اٹھانا ہے
مجھ سے جو سر محفل تم آنکھ چراتے ہو
کیا راز محبت کو افسانہ بنانا ہے
حالت کے تغیر پر ہو ماتم ماضی کیوں
اک وہ بھی زمانہ تھا اک یہ بھی زمانا ہے
ہے گوشۂ تنہائی منظور مجھے بیخودؔ
اس بزم میں جانا تو جی اور جلانا ہے
غزل
بے وجہ نہیں ان کا بے خود کو بلانا ہے
عباس علی خاں بیخود