EN हिंदी
بے وفا نا مہرباں یہ سچ ہے وہ ایسا تو تھا | شیح شیری
be-wafa na-mehrban ye sach hai wo aisa to tha

غزل

بے وفا نا مہرباں یہ سچ ہے وہ ایسا تو تھا

حسن کمال

;

بے وفا نا مہرباں یہ سچ ہے وہ ایسا تو تھا
مت کہو کچھ اس کو یارو جو بھی تھا میرا تو تھا

بھیڑ اتنی ہے نگر میں کس جگہ ڈھونڈوں اسے
ایک چہرہ کچھ دنوں پہلے کہیں دیکھا تو تھا

رات آئی اور آ کے مجھ کو تنہا کر گئی
کم سے کم دن تھا تو میرے ساتھ اک سایہ تو تھا

اب تو اک مدت ہوئی کوئی صدا آتی نہیں
جن دنوں ٹوٹا تھا دل اک شور سا اٹھا تو تھا

ہم حسنؔ کو جانتے ہیں آدمی اچھا نہ تھا
دو گھڑی کو پاس آ کے دل کو بہلاتا تو تھا