EN हिंदी
بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں | شیح شیری
be-talab ek qadam ghar se na bahar jaun

غزل

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں

یوسف ظفر

;

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں
ورنہ میں پھاند کے ہی سات سمندر جاؤں

داستانیں ہیں مکانوں کی زبانوں پہ رقم
پڑھ سکوں میں تو مکانوں سے بیاں کر جاؤں

میں منظم سے بھلا کیسے کروں سمجھوتا
ڈوبنے والے ستاروں سے میں کیوں ڈر جاؤں

روح کیا آئے نظر جسم کی دیواروں میں
ان کو ڈھاؤں تو اس آئینے کے اندر جاؤں

اور دو چار مصائب کی کسر باقی ہے
یہ اٹھا لاؤں تو میں دنیا کے سفر پر جاؤں

زہر ہے میرے رگ و پے میں محبت شاید
اپنے ہی ڈنک سے بچھو کی طرح مر جاؤں

تھک کے پتھر کی طرح بیٹھا ہوں رستے میں ظفرؔ
جانے کب اٹھ سکوں کیا جانیے کب گھر جاؤں