بے تابیٔ غم ہائے دروں کم نہیں ہوگی
یہ آگ تو اب تم سے بھی مدھم نہیں ہوگی
دامن کو ضیائے رخ مہتاب سے بھر لے
اب بارش انوار ہے پیہم نہیں ہوگی
تو ہی دل بے تاب جو سو جائے تو سو جائے
یہ چاندنی اس رات تو مدھم نہیں ہوگی
میں ان کے لیے غیر ہوں وہ میرے لیے غیر
اچھا ہے کہ اب رنجش باہم نہیں ہوگی
ہم سب کو سنا کر ہی رہیں گے غم ہستی
آواز کسی شور میں مدغم نہیں ہوگی
اب قافلۂ زیست ہی رک جائے تو رک جائے
یہ درد کی لذت تو کبھی کم نہیں ہوگی
غزل
بے تابیٔ غم ہائے دروں کم نہیں ہوگی
شہزاد احمد