بے سود ایک سلسلۂ امتحاں نہ کھول
سب دیکھ دیکھتا ہی چلا جا زباں نہ کھول
اندر کا ہی نہ ہو ذرا باہر بھی دیکھ لے
دل خون ہے تو آنکھ پہ خونیں سماں نہ کھول
اک گرد چھائے گی ترے مومی دماغ پر
تھمنے دے آندھیوں کو ابھی کھڑکیاں نہ کھول
چھپ جائے گا کہاں ترے حصے کا آفتاب
اے سایہ گرد سر پہ کوئی سائباں نہ کھول
امکان ہو تو کر لے ہوا سے مصالحت
بے فائدہ ہے ورنہ کوئی بادباں نہ کھول
ان سے یقیں کی دولت نایاب مانگ تو
آنکھوں پہ اپنی کوئی فسوں اور گماں نہ کھول
منظورؔ حرف حرف قلم کا حساب دے
لیکن فضول دفتر سود و زیاں نہ کھول
غزل
بے سود ایک سلسلۂ امتحاں نہ کھول
حکیم منظور