EN हिंदी
بے سر و ساماں کچھ اپنی طبع سے ہیں گھر میں ہم | شیح شیری
be-sar-o-saman kuchh apni taba se hain ghar mein hum

غزل

بے سر و ساماں کچھ اپنی طبع سے ہیں گھر میں ہم

شہاب جعفری

;

بے سر و ساماں کچھ اپنی طبع سے ہیں گھر میں ہم
شہر کہتے ہیں جسے ہیں اس کے پس منظر میں ہم

شام ڈوبی پڑ رہے سورج کے در پر شب کی شب
صبح بکھری چل پڑے خود کو لیے ٹھوکر میں ہم

آگہی تو نے ہمیں کن وسعتوں میں گم کیا
بے نشاں ہر ملک میں بے آسرا ہر گھر میں ہم

اپنے ہی صحرا میں کھو جائیں گے اندازہ نہ تھا
بازگشت اپنی لیے پھرتے ہیں اپنے سر میں ہم

ساتویں در تک پکار آئی خودی کو بے خودی
اور ہر در سے جواب آیا نہیں ہیں گھر میں ہم

تیری دستک تھی کہ سناٹا وہی ہر شام کا
رہرو کوہ ندا ہیں گھر کے بام و در میں ہم

چار سو صحرا میں ہے درد انا الصحرا کی گونج
کاٹ کر اپنی زباں رکھ آئے تھے پتھر میں ہم

چھان یہ صحرا گھٹی ہیں اس کی چوحد میں صدائیں
کاٹ یہ پربت دبے ہیں اس کی خاکستر میں ہم

اب ہمیں بھاتا نہیں پیہم صداؤں کا نزول
اب تو خود گونجے ہوئے ہیں گنبد بے در میں ہم

کیاں مکاں تاکا ہے دل نے رات اور دن سے پرے
بے زباں ہوتے چلے ہیں قید بام و در میں ہم

جانے اس رہرو کی نظریں کون سی منزل پہ ہوں
ایک کانٹا سا کھٹکتے ہیں دل رہبر میں ہم

زہر کا پیالہ ہو پینا یا اٹھانی ہو صلیب
صدیوں بعد آئیں مگر ہوتے ہیں اس منظر میں ہم

دشت در دشت آسماں بر دوش چلتے ہیں شہابؔ
ہم سے بنجارے جنم اپنا لیے ٹھوکر میں ہم