بے سہاروں کا انتظام کرو
یعنی اک اور قتل عام کرو
خیر خواہوں کا مشورہ یہ ہے
ٹھوکریں کھاؤ اور سلام کرو
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو! جاؤ اپنا کام کرو
خواہشیں جانے کس طرف لے جائیں
خواہشوں کو نہ بے لگام کرو
میزبانوں میں ہو جہاں ان بن
ایسی بستی میں مت قیام کرو
یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے
کتنا جھک کر کسے سلام کرو
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظؔ
آستینوں کا انتظام کرو
غزل
بے سہاروں کا انتظام کرو
حفیظ میرٹھی