بے سبب وحشتیں کرنے کا سبب جانتا ہے
میں جو کرتا ہوں وہ کیوں کرتا ہوں سب جانتا ہے
بولتے سب ہیں مگر بات کہاں کرتے ہیں
یہ سلیقہ تو کوئی مہر بہ لب جانتا ہے
مجھ سے گستاخ کو وہ کیسے گوارہ کر لے
جب کہ وہ شہر سخن حد ادب جانتا ہے
اپنے ہی ڈھب سے وہ کرتا ہے مری چارہ گری
کب چمکنا ہے مرا طالع شب جانتا ہے
کیسے موسم میں کہاں راحت جاں اترے گا
ایسی سب باتیں دل رنج طلب جانتا ہے
بھول سکتا ہے اسے یہ دل عیار مگر
چشم و ابرو کا فسوں لذت لب جانتا ہے
مسکرا کر جسے ملتا ہوں ہمیشہ عظمیؔ
اک وہی میری اداسی کا سبب جانتا ہے

غزل
بے سبب وحشتیں کرنے کا سبب جانتا ہے
اسلام عظمی