بے رنگ تھے آرزو کے خاکے
وہ دیکھ رہے ہیں مسکرا کے
یہ کیا ہے کہ ایک تیر انداز
جب تاکے ہمارے دل کو تاکے
اب سوچ رہے ہیں کس کا در تھا
ہم سنبھلے ہی کیوں تھے ڈگمگا کے
اک یہ بھی ادائے دلبری ہے
ہر بات ذرا گھما پھرا کے
دل ہی کو مٹائیں اب کہ دل میں
پچھتائے ہیں بستیاں بسا کے
ہم وہ کہ سدا فریب کھائے
خوش ہوتے رہے فریب کھا کے
چھو آئی ہے ان کی زلف محشرؔ
انداز تو دیکھیے صبا کے
غزل
بے رنگ تھے آرزو کے خاکے
محشر عنایتی