بے نیازانہ ہر اک راہ سے گزرا بھی کرو
شوق نظارہ جو ٹھہرائے تو ٹھہرا بھی کرو
اتنے شائستۂ آداب محبت نہ بنو
شکوہ آتا ہے اگر دل میں تو شکوہ بھی کرو
سینۂ عشق تمناؤں کا مدفن تو نہیں
شوق دیدار اگر ہے تقاضا بھی کرو
وہ نظر آج بھی کم معنی و بیگانہ نہیں
اس کو سمجھا بھی کرو اس پہ بھروسا بھی کرو
غزل
بے نیازانہ ہر اک راہ سے گزرا بھی کرو
اطہر نفیس