بے نام سی خلش کہ جو دل میں جگر میں ہے
ہلچل بپا کئے ہوئے یہ بحر و بر میں ہے
جاتی ہوئی بہار کے منظر کو دیکھ کر
آتی ہوئی بہار کا منظر نظر میں ہے
ہے دید اولیں بھی یقیناً حسیں مگر
بات اور ہی نظارۂ بار دگر میں ہے
آئے گی ایک منزل بے شام و بے سحر
پنہاں یہ راز گردش شام و سحر میں ہے
راہیؔ وہ اہل دل ہیں بقول امیرؔ ہم
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
غزل
بے نام سی خلش کہ جو دل میں جگر میں ہے
راہی شہابی