EN हिंदी
بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے | شیح شیری
be-nam dayaron se hum log bhi ho aae

غزل

بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے

شفیق سلیمی

;

بے نام دیاروں سے ہم لوگ بھی ہو آئے
کچھ درد تھے چن لائے کچھ اشک تھے رو آئے

کچھ پاس نہ تھا اپنے بس آس لیے گھومے
اک عمر کی پونجی تھی سو اس کو بھی کھو آئے

توہین انا بھی کی تحسین ریا بھی کی
یہ بوجھ بھی ڈھونا تھا یہ بوجھ بھی ڈھو آئے

اک کار نمو برسوں کرتے رہے بن سوچے
ہم بیج محبت کے صحراؤں میں بو آئے

پہچان کا ہر منظر انجان ہوا آخر
لگتا ہے کئی صدیاں اک غار میں سو آئے