بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
اتنا غافل وہ بت عیار پہلے تو نہ تھا
اہل دل جاتے ہیں اب دار و رسن کی راہ سے
اس قدر مشکل وصال یار پہلے تو نہ تھا
مصر کی گلیاں اتر آئی ہیں اپنے شہر میں
حسن والوں کا یہ حال زار پہلے تو نہ تھا
آ رہی ہے خود بخود شاید کوئی منزل قریب
مہرباں یوں قافلہ سالار پہلے تو نہ تھا
اس میں بھی کچھ راز ہے ورنہ دیار حسن میں
درد مندوں کا کوئی غم خوار پہلے تو نہ تھا
ہوش میں آنے لگے ہیں ان بہاروں کے طفیل
ورنہ دیوانوں کا یہ کردار پہلے تو نہ تھا
روز و شب اپنے لئے ہیں قتل کے فتوے قتیلؔ
مفتیٔ شہر اس قدر دین دار پہلے تو نہ تھا
غزل
بے خودی میں پہلوئے اقرار پہلے تو نہ تھا
قتیل شفائی