بے خود مجھے اے جلوۂ جانانہ بنا دے
دنیا مری حیرت کو تماشا نہ بنا دے
اے عشق اب احساس سے بیگانہ بنا دے
ورنہ کہیں غم دل کو کھلونا نہ بنا دے
جس بزم میں پہنچوں میں بنوں بزم کا حاصل
اتنا تو تری چشم کریمانہ بنا دے
آیا ہوں میں بھٹکا ہوا صحرائے جنوں سے
اے عقل کہیں تو بھی نہ دیوانہ بنا دے
محفل مری آنکھوں میں تجھے ڈھونڈ رہی ہے
تو مجھ کو کہیں انجمن آرا نہ بنا دے
بد بخت ہوں جاتے ہوئے ڈرتا ہوں چمن میں
قسمت کہیں ہر پھول کو کانٹا نہ بنا دے
جوہرؔ پہ ستم ترک محبت کی ہے تمہید
یہ جور تمہیں اور بھی پیارا نہ بنا دے
ہر گام پہ کچھ پھول چنے جاتے ہو جوہرؔ
یہ شوق کہیں باغ کو صحرا نہ بنا دے

غزل
بے خود مجھے اے جلوۂ جانانہ بنا دے
جوہر نظامی