EN हिंदी
بے خیالی میں کہا تھا کہ شناسائی نہیں | شیح شیری
be-KHayali mein kaha tha ki shanasai nahin

غزل

بے خیالی میں کہا تھا کہ شناسائی نہیں

سدرہ سحر عمران

;

بے خیالی میں کہا تھا کہ شناسائی نہیں
زندگی روٹھ گئی لوٹ کے پھر آئی نہیں

جو سمجھنا ہی نہ چاہے اسے سمجھائی نہیں
جو بھی اک بار کہی بات وہ دہرائی نہیں

حسن سادہ ہے ترا میں بھی بہت عام سی ہوں
میری آنکھوں میں کسی نیل کی گہرائی نہیں

میرا حصہ مجھے خاموشی سے دے دیتا ہے
درد کے آگے ہتھیلی کبھی پھیلائی نہیں

اپنے افکار لیے پہلو نشیں ہو کے رہا
دل سے درویش نے دنیا تری اپنائی نہیں

شب کے تاریک لبوں پر ہے کئی سال کی چپ
خود سے ناراض ہے اتنی کبھی مسکائی نہیں

باس پھولوں کی چرا لی ہے ہواؤں نے مگر
جو کلی یاد کی تیری ہے وہ مرجھائی نہیں

آگ یہ دونوں طرف کیوں نہ برابر سی لگے
ہائے وہ عشق ہی کیا جس میں پذیرائی نہیں

بے ارادہ بھی کوئی کام تعطل نہ پڑا
با ارادہ تھی ملاقات کی شب آئی نہیں