بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو
بہتر ہے اس سے یہ کہ سرے سے زباں نہ ہو
ہوں بے ہراس یہ مجھے رکھیں کسی جگہ
ڈر ہو وہاں کہ تیری حکومت جہاں نہ ہو
اک تو جو مہرباں ہو تو ہر اک ہو مہرباں
اور یوں نہ ہو بلا سے کوئی مہرباں نہ ہو
ہم کو تو ایک تجھ سے دو عالم میں ہے غرض
سب بدگماں ہوا کریں تو بدگماں نہ ہو
دیر و حرم میں ڈھونڈ کے سب تھک گئے اسے
اب کون کہہ سکے کہ کہاں ہو کہاں نہ ہو
کرنا ہی تھا حرام تو پھر وعدہ کس لیے
یہ کیا کہ مے حلال وہاں ہو یہاں نہ ہو
ہمت نہ ہار دے کوئی منزل کے سامنے
پروردگار یوں بھی کوئی ناتواں نہ ہو
ملنے تو پھر چلے ہو مشیخت پناہ سے
قشقہ کا دیکھو آج جبیں پر نشاں نہ ہو
جوہرؔ اس ایک دل کے لیے اتنے مشغلے
کی ہے خدا کی چاہ تو عشق بتاں نہ ہو
غزل
بے خوف غیر دل کی اگر ترجماں نہ ہو
محمد علی جوہرؔ