بے خبر سائباں ابھی تک ہے
دھوپ مجھ پر یہاں ابھی تک ہے
میرے ہونے کا کیا یقین اسے
خود مجھے بھی گماں ابھی تک ہے
راز تو کھل گیا زمانے پر
اور وہ رازداں ابھی تک ہے
آج بھی تو وہی ہے نہر فرات
کیا وہی حکمراں ابھی تک ہے
سب تو سیراب ہو گئے منظرؔ
کیوں یہ جوئے رواں ابھی تک ہے
غزل
بے خبر سائباں ابھی تک ہے
جاوید منظر