EN हिंदी
بے کسی سے مرنے مرنے کا بھرم رہ جائے گا | شیح شیری
be-kasi se marne marne ka bharam rah jaega

غزل

بے کسی سے مرنے مرنے کا بھرم رہ جائے گا

شکیل بدایونی

;

بے کسی سے مرنے مرنے کا بھرم رہ جائے گا
وہ ضرور آئیں گے جب آنکھوں میں دم رہ جائے گا

کیا خوشی میں زندگی کا ہوش کم رہ جائے گا
غم اگر مٹ بھی گیا احساس غم رہ جائے گا

ہائے وہ اک عالم بے تابئ پنہاں کہ جب
فاصلہ منزل سے اپنا دو قدم رہ جائے گا

چھیڑ دی میں نے اگر روداد حسن شش جہت
نا مکمل قصۂ دیر و حرم رہ جائے گا