بے کسی پر ظلم لا محدود ہے
مطلع انصاف ابرآلود ہے
وقت کی قیمت ادا کرنے کے بعد
عہد کا فرعون پھر مسجود ہے
ہر طرف زر کی پرستش ہے یہاں
سنتے آئے تھے خدا معبود ہے
چار سو ہے آتش و آہن کا کھیل
اور خلا میں شعلہ و بارود ہے
تابش علم و ہنر ہے بے ثمر
کاوش حسن عمل بے سود ہے
امن کیفیؔ ہو نہیں سکتا کبھی
جب تلک ظلم و ستم موجود ہے

غزل
بے کسی پر ظلم لا محدود ہے
اقبال کیفی